Tuesday, October 31, 2006

دعا ۔ فیض

آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی
ہم جنہیں رسم دعا یاد نہیں
ہم جنھیں سوز محبت کے سوا
کوئی بت کوئی خدا یاد نہیں

آئیے عرض گزاریں کہ نگارِ ہستی
زہرِامروز میں شیرینیِ فردا بھردے
وہ جنہیں تاب گراں باری ایام نہیں
ان کی پلکوں پہ شب و روز کو ہلکا کردے

جن کی آنکھوں کو رخِ صبح کا یارا بھی نہیں
ان کی راتوں میں کوئی شمع منور کردے
جن کے قدموں کو کسی رہ کا سہارا بھی نہیں
ان کی نظروں پہ کوئی راہ اجاگر کردے

جن کا دیں پیرویِ کذب و ریا ہے ان کو
ہمت کفر ملے ، جراءت تحقیق ملے
جن کے سر منتظر تیغ جفا ہیں ان کو
دست قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے

Friday, May 06, 2005

زندگی کے حادثوں میں

زندگی کے حادثوں میں وہ حادثہ اچھا لگا
سب بت یہاں اچھے مگر پتھر کا بت اچھا لگا
تلخ یاد یں ہی سہی انکی ہمارے پاس ہیں
ہم کو قدرت کا یہ تحفہ حافظہ اچھا لگا
رنج و غم اور الجھنیں سب کچھ ہمارے پاس ہیں
پھر بھی کسی کی یاد میں جلنا بہت اچھا لگا
زندگی کی بھیڑ میں روشنی گو کم سہی
ہم کو اس ہی بھیڑ میں سامنا اچھا لگا
شاعری اس دور میں زیست کا حاصل بنی
سب کو بھی اچھی لگی مجھ کو بھی اچھا لگا
وقت گزاری کے لیے کچھ ڈھنگ ہونے چاہیئں
اس مشینی دور میں فی الوقت یہی اچھا لگا
ہم کو کسی کی یاد سے کیا واسطہ اعجاز
پر واسطوں کے درمیاں یہ واسطہ اچھا لگا

Thursday, September 16, 2004

آج کے نام ۔ فیض

آج کے نام

اور

آج کے غم کے نام

آج کا غم کے ہے زندگی کے بھرے گلستاں سے خفا

ذرد پتوں کا بن

ذرد پتوں کا بن جو مرا دیس ہے

درد کا انجمن جو مرا دیس ہے

کلرکوں کی افسردہ جانوں کے نام

کرم خوردہ دلوں اور زبانوں کے نام

پوسٹ مینوں کے نام

تانگے والوں کے نام

ریل بانوں کے نام

کارخانوں کے بھولے جیالوں کے نام

بادشاہِ جہاں، والیِ ما سوا، نائب للہ فی الارض، دھقاں کے نام

جس کی ڈوروں کو ظا لم ہںکا لے گئے

جس کی بیٹی کو ڈاکو اٹھالے گئے

ہاتھ بھر کھیت سے اک انگشت پتوار سے کاٹ لی ہے

دوسری مالئے کے بہانے سے سرکار نے کاٹ لی ہے

جس کے پگ زور والوں کے پاؤں تلے

دھجیاں ہو گئ ہے

ان دکھی ماؤں کے نام

رات میں جن کے بچے بلکتے ہیں اور

نیند کی مار کھائے ہوئے بازوؤ ں سے سنبھلتے نہیں

دکھ بتاتے نہیں

منتوں زریعوں سےبہلتے نہیں

ان حسیناؤں کے نام

جنکی آنکھوں کے گل

چلمنوں اور دریچوں کی بیلوں پہ بیکار کھل کھل کے

مرجھاگئے ہیں

اَن بیاہتاؤ ں کے نام

جنکے بدن

بے محبت ریا کار سیجوں پہ سج سج کے اکتاگئے ہیں

بیوائوں کے نام

کتاریوں اور گلیوں محلوں کے نام

جن کی ناپاک خاشا ک سے چاند راتوں

کو آ آ کہ کرتے ہیں اکثر وضو

جن کی سایوں میں کرتی ہے آہ و بکا

آنچلوں کی حنا

چوڑیوں کی کھنک

کاکلوں کی مہک

آرزو مند سینوں کی اپنے پسینےمیں جلنے کی بو

پڑھانے والوں کے نام

وہ جو اصحاب طبل و علم

کی دروں پر کتاب اور قلم

کا تقاضا لیئے ہاتھ پھیلائے

پہنچے، مگر لوٹ کر گھر نہ آئے

وہ معصوم جو بھولپن میں

وہاں اپنے ننھے چراغوں میں لاؤ کی لگن

لے کے پہنچے جہاں

بنٹ رہی تھی گھٹا ٹوپ، بے انت راتوں کے سائے

ان اسیروں کے نام

جن کے سینوں میں فردا کی شباتاب گوہر

جیل خانوں کی شوریدہ راتوں کی سر سر میں

جل جل کے انجم نماں ہو گئ ہیں

آنے والے دنوں کے سفیروں کے نام

وہ جو خوشبوئ گل کی طرح

اپنے پیغام پر خود فدا ہو گئے ہیں

(نا مکمل اخ تمام)

Friday, September 10, 2004

ہر حقیقت مجاز ہو جائے ۔ فیض

ہر حقیقت مجاز ہو جائے

کافروں کی نماز ہو جائے

منتِ چارہ ساز کون کرے

درد جب جاں نواز ہو جائے

عشق دل میں رہے تو رسوا ہو

لب پہ آئے تو راز ہو جائے

لطف کا انتظار کر تا ہوں

جور تا حدِ نا ز ہو جا ئے

عمر بے سود کٹ رہی ہے فیض

کا ش افشائ راز ہو جائے

ھمتِ التجا نہیں باقی ۔ فیض

ھمتِ التجا نہیں باقی

ضبط کا حوصلہ نہیں باقی

اک تری دید چھن گئ مجھ سے

ورنہ دنیا میں کیا نہیں باقی

اپنے مشقِ ستم سے ہاتھ نہ کھیںچ

میں نہیں یا وفا نہیں باقی

ترے چشمِ عالم نواز کی خیر

دل میں کوئئ گلہ نہیں باقی

ہو چکا ختم عہدِ ہجر و وصال

زندگی میں مزا نہیں باقی