Thursday, September 16, 2004

آج کے نام ۔ فیض

آج کے نام

اور

آج کے غم کے نام

آج کا غم کے ہے زندگی کے بھرے گلستاں سے خفا

ذرد پتوں کا بن

ذرد پتوں کا بن جو مرا دیس ہے

درد کا انجمن جو مرا دیس ہے

کلرکوں کی افسردہ جانوں کے نام

کرم خوردہ دلوں اور زبانوں کے نام

پوسٹ مینوں کے نام

تانگے والوں کے نام

ریل بانوں کے نام

کارخانوں کے بھولے جیالوں کے نام

بادشاہِ جہاں، والیِ ما سوا، نائب للہ فی الارض، دھقاں کے نام

جس کی ڈوروں کو ظا لم ہںکا لے گئے

جس کی بیٹی کو ڈاکو اٹھالے گئے

ہاتھ بھر کھیت سے اک انگشت پتوار سے کاٹ لی ہے

دوسری مالئے کے بہانے سے سرکار نے کاٹ لی ہے

جس کے پگ زور والوں کے پاؤں تلے

دھجیاں ہو گئ ہے

ان دکھی ماؤں کے نام

رات میں جن کے بچے بلکتے ہیں اور

نیند کی مار کھائے ہوئے بازوؤ ں سے سنبھلتے نہیں

دکھ بتاتے نہیں

منتوں زریعوں سےبہلتے نہیں

ان حسیناؤں کے نام

جنکی آنکھوں کے گل

چلمنوں اور دریچوں کی بیلوں پہ بیکار کھل کھل کے

مرجھاگئے ہیں

اَن بیاہتاؤ ں کے نام

جنکے بدن

بے محبت ریا کار سیجوں پہ سج سج کے اکتاگئے ہیں

بیوائوں کے نام

کتاریوں اور گلیوں محلوں کے نام

جن کی ناپاک خاشا ک سے چاند راتوں

کو آ آ کہ کرتے ہیں اکثر وضو

جن کی سایوں میں کرتی ہے آہ و بکا

آنچلوں کی حنا

چوڑیوں کی کھنک

کاکلوں کی مہک

آرزو مند سینوں کی اپنے پسینےمیں جلنے کی بو

پڑھانے والوں کے نام

وہ جو اصحاب طبل و علم

کی دروں پر کتاب اور قلم

کا تقاضا لیئے ہاتھ پھیلائے

پہنچے، مگر لوٹ کر گھر نہ آئے

وہ معصوم جو بھولپن میں

وہاں اپنے ننھے چراغوں میں لاؤ کی لگن

لے کے پہنچے جہاں

بنٹ رہی تھی گھٹا ٹوپ، بے انت راتوں کے سائے

ان اسیروں کے نام

جن کے سینوں میں فردا کی شباتاب گوہر

جیل خانوں کی شوریدہ راتوں کی سر سر میں

جل جل کے انجم نماں ہو گئ ہیں

آنے والے دنوں کے سفیروں کے نام

وہ جو خوشبوئ گل کی طرح

اپنے پیغام پر خود فدا ہو گئے ہیں

(نا مکمل اخ تمام)

0 Comments:

Post a Comment

<< Home